کراچی سے 54 سالہ حافظ انجنئیر نعیم الرحمن، جماعت اسلامی پاکستان کے چھٹے امیر منتخب ہو کر آئے ہیں تو ان کو جماعت اسلامی کے ملک بھر میں پھیلے ہوئے 60 ھزار سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے. علاوہ ازیں ان کو کراچی سے لاکھوں کی تعداد میں باشعور عوام کی حمایت بھی حاصل ہے جنھوں نے گزشتہ دو انتخابات میں ان کو ووٹ دیا ہے اور یہ ان کی سالہاسال کی جدوجہد کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے کراچی کی حد تک جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بحال کیا ہے. اس طرح وہ ایک نسبتاً مضبوط پوزیشن میں قومی افق پر نمودار ہوئے ہیں. الیکٹرانک میڈیا پر بھی وہ پہلے سے ایک جانی پہچانی شخصیت کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں اور ان کی ایک میڈیا فرینڈلی لیڈر کی حیثیت بن گئی ہے جو بے تکلفی سے اردو اور انگریزی زبان میں اپنا نقطہ نظر پیش کر رہے ہیں. حافظ قرآن ہونے کے ناطے وہ ایک دینی پس منظر بھی رکھتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے لباس اور get up کی وجہ سے نوجوان نسل کے لئے بھی پر کشش بن چکے ہیں. ان تمام مثبت اشاریوں کے باوجود قومی سطح کی سیاست میں ان کی انٹری اور بہتر ریٹنگ کا حصول اتنا آسان نہیں ہوگا. یہاں ان کا مقابلہ بڑی بڑی شخصیات، جغادری اور مقبول لیڈروں سے پڑنے والا ہے. عمران خان، میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے علاوہ اب میاں شہباز شریف، بلاول بھٹو اور مریم نواز جیسی نئی قیادت بھی میدان سیاست میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی ہیں ان سرمایہ دار اور جاگیردار پس منظر کے حامل افراد کے مقابلے میں ایک درمیانے طبقہ کا تعلیم یافتہ فرد اپنی جگہ کیسے بنا پائے گا، یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان ھو گا .حافظ صاحب نے گزشتہ عرصے میں کراچی کے مسائل حل کرنے پر جو فوکس کیا تھا اور اس کے نتیجے میں ان کو وہاں مقامی سطح پر جو پزیرائی ملی ہے، اس کو برقرار رکھنا اور اس کو سندھ کے دیگر شہروں میں توسیع دینا بھی ضروری ہے. ان کے لئے پارٹی سطح پر بھی کئی چیلنجز درپیش ہیں. ایک نسبتاً جوان اور نئی ٹیم کی تشکیل مشکل عمل ہے جس کی ان سے توقع کی جا رہی ہے. جب وہ منصورہ لاہور منتقل ہو جائیں گے تو کراچی سے ان کا قریبی رشتہ کیسے برقرار رہے گا، اس پر بھی سوالیہ نشان ہے.
دعاگو، ڈاکٹر محمد اقبال خلیل ،پشاور.