کسی بھی علاقہ کی تاریخ کو ان کے جغرافیہ،اب و ہوا اور طرز زندگی کے حوالے سے ترتیب دی جاتی ہے۔ دریا سندھ اور دریا آ مو کے بیج میں واقع علاقہ کئی صدیوں سے جنگ و جدل اور بے چینی کا آماجگاہ رہا ہے۔ ظہور اسلام سے پہلے بھی اس علاقہ کے باسی خانہ بدوش(کوچیان) لوٹ مار اور گوریلا جنگ کے ماہر تصور کیے جاتے تھے۔ یہ لوگ کبھی فارس جیسی بڑی مملکت کے سرحدی شہروں اور دہات پر حملہ آور ہوتے تھے اور کبھی ہندوستان جیسے سرسبز و شاداب اور امیر ملک بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ نہیں تھا۔۔
اسلام کو بحثیت قوم قبول کرنے کے بعد اس علاقے کے
باشندے قدرے منظم و مرتب ہوکر ایک مسلم دائرہ میں
مربوط ہوگئے۔لیکن ان کی جنگی مزاج اور سکون سے نہ بیٹھنے کی فطری عادت ان کی معاشرت میں بدستور موجود تھی۔اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کی تصور نے اس علاقے کے باشندوں کی وہ فطری عادات کو مزید سنوار کر اور نکھار کر مزید قوت بخشی ۔ مختلف ادوار میں مسلم حکمرانوں کی فوج میں اس علاقہ کا جنگی دستہ ہمیشہ شامل رہا ہے۔اور ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ حتی کہ احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان کے حکمرانوں سے اپنے دستے کو الگ کرکے قندھار کے صوبہ میں انہی علاقوں کے لوگوں پر مشتمل ایک جدید مملکت کی بنیاد رکھ لی جس کو دنیا آج تک افغانستان کے نام سے جانتی ہے۔ لفظ افغان بذات خود فارسی زبان کا لفظ ہے جسکی معنی جنگ و جدل کے بعد آنی والی مشکلات اور مصیبتوں کا سامنا کرنا ۔ آ ہ و فغاں ، گریہ و زاری۔ غم و افسوس۔۔۔لہذا اسی کی نسبت پختونوں کا نام افغان پڑھ گیا۔( واللہ اعلم)
لہذا افغان یا پشتون قوم انفرادی یا اجتماعی، دونوں صورتوں میں ہمیشہ مصروف جنگ رہی ہے۔ پشتون قوم ہمیشہ دفاعی جنگ یا پیشقدمی کی جنگ میں مصروف رہی ہے۔ ایک آدھ فاتح کے علاؤہ ہندوستان میں جتنے فاتح (Invaiders) آیے ہیں،سب ہی انہی دو دریاؤں کی درمیانی علاقے سے اٹھ کر پورے ہندوستان پر حملہ اور ہوئے ہیں۔
انگریز نے جب برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کرکے تاج برطانیہ میں شامل کیا۔ تو ساتھ ہی انہوں نے نیپال،بوٹان،سری لنکا ،برما اور دیگر چھوٹی بڑی ریاستوں کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔لیکن تمام تر قوت کے باوجود ان
دو دریاؤں کے درمیانی علاقے کو فتح نہیں کر سکا اور کئ ناکام جنگوں کے بعد 1893 عیسوی میں ، برٹش حکومت نے افغانستان کو ایک آزاد، ہمسایہ مملکت تسلیم کرکے برطانیہ نے اپنے خارجہ سیکرٹری ڈیورنڈ کے ذریعے افغانستان کے امیر عبدالرحمن خان کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرکے
د ستخط کیا۔ جس کی رو سے کچھ سرحدی معاملات کو حل کرکے لیکن کچھ علاقوں کو آزاد چھوڑ کر انہیں آزاد قبائیل کا نام دے دیا گیا۔اور ان آزاد قبائیل کو دونوں ممالک میں کافی مراعات اور حقوق حاصل تھے۔ لیکن دونوں ریاستوں کے مابین ایک سرحدی لکیر کھینچ کر اس کو ڈیورنڈ لائن کا نام دیا گیا جو کہ سو سال کیلیے کار آمد ہوگا۔
تاریخ کے اسی دور میں دریا آ مو کے اس پار سے روس بھی اپنی طاقت میں مسلسل اضافہ کر ہا تھا اور زارے روس کی بادشاہت نے امارت بخارا کو عملاً مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔ سلطنت بخارا کے آخری حکمران، امیر محمد عالم خان روس کے شہر سینٹ پیٹر برگ سے پڑھا ہوا تھا اور اس میں زار روس کے خلاف کھڑے ہونے کی طاقت نہیں تھی۔۔
لہذا 1920 عیسوی تک دریا سندھ و دریا آ مو کے دونوں طرف دو طاقتور حکمرانوں کے بیج یہ منطقہ( افغانستان) اپنی آزاد حیثیت کو برقرار رکھے ہوا تھا،حالانکہ اس وقت دنیا کے سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیکر بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ افغانیوں نے اپنی آزاد حیثیت صرف اپنی اس فطری عادت، گوریلا جنگ کے ذریعے برقرار رکھی تھی۔اور یہ دونوں طاقتیں اسی خوف سے سرزمین افغانستان کو نہیں چھیڑتے تھے۔ اسی دوران افغانستان میں بھی ایک خاندان کی بادشاہت قائم ہوگئی جو کہ صرف عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے دلدادہ تھے۔
روس میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہوگئی اور پوری وسط ایشیاء کی بساط کو لپیٹ کر بالشویکوں نے تخت بخارا کو اپنے تحویل میں لے لیا اور USSR کا ایک مفتوح ریاست بن گیا۔
بخارا کی آخری حکمران امیر عالم خان بخارا سے بھاگ کر کابل میں پناہی حاصل کر لی اور 1944 میں فوت کر کابل ہی میں دفن کیا گیا۔
1947 میں برطانیہ ہندوستان سے نکل کر واپس چلا گیا اور افغانستان کے ہمسایہ میں برطانیہ سے نسبتاً چھوٹا لیکن اسلامی ملک پاکستان بن گیا،
لیکن دریا آ مو کے اس پار اب بھی روس اپنی سرخ افواج کے ساتھ ایک بڑے اور جارح قوت کی شکل میں موجود تھا۔ اس وقت کے شاہ ظاہر شاہ نے ایک آدھ دفعہ روس سے خطرہ محسوس کیا تو افغانستان کے مشرق وجنوب سے پشتون قبائیل کو دریا آ مو کے ساتھ والے علاقوں میں آباد کیا، جس میں تخار، کندز، مزار اور شبر غان کے علاقے شامل رہے۔ جو کہ دریا آمو کےکنارے واقع ہیں۔
لیکن آخر کار روس کی صبر تمام ہوئی اور 1979 میں کابل میں ایک داخلی شورش کے نتیجہ میں ان سے مدد طلب کی گئی اور سرخ فوج ( Red Army ) نے لبیک کہہ کر دریا آمو کو کراس کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
9 سال تک روسی فوجی دو دریاؤں کے بیجھ اس خطہ میں خوار ہوتے رہے اور آخر کا 1988 عیسوی کو ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت ، بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کو چے سے ہم نکلے کے مصداق واپس اپنے وطن کو لوٹے اور ایسے لوٹے کہ پھر وسط ایشیاء میں بھی نہ ٹھر سکے اور واپس ماسکو میں جا دھبکے۔اور وسطی ایشیا میں پانچ نئی ریاستیں بن گئی، جنکا خد و خال، اٹھک بیٹھک،زندگی و معاشرت تقریبآ انہی روسیوں کی طرح ہے۔لیکن ماتھے سے USSR کا کلک ناپید ہو گیا تھا۔
اب دنیا میں جدید ٹیکنالوجی کا علمبردار ،عظیم فوجی قوت کی حامل،علم و دانش کے ہسپ پر سوار اور پوری انسانیت سے بھی بڑھ کر پوری زندہ مخلوقات کا درد دل میں لیے ہوئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ پورے آب و تاب کے ساتھ، دنیا کے تمام ممالک کی تائید کے ساتھ ایک ایسے ملک پر حملہ اور ہوا، جس کے پاس اس اکیسویں صدی میں نہ نیچرل گیس کا استعمال ہے، نہ ریلوے لائین کا رواج، نہ سیمنٹ اور لوہے کی فیکٹریاں _ نہ دوائی اور جنگ حرب کی ساز و سامان کی فیکٹریاں۔ جہاں پر دس فیصد سے کم پکی سڑکیں تھیں۔
ایسے کمزور اور ناتواں ملک پر امریکہ کی قیادت میں پوری دنیا کا حملہ، ایسا ہی تھا جیسے مچھر کو توپ سے مارنے کی تدبیر کی گئی ہو۔
۔۔لیکن یہاں پھر ان دو دریاؤں کی بیج علاقے کی جغرافیائی اور فطری عادات آڑے آگئے جو کہ ان دو دریاؤں کے بیج میں رہنے والوں کا خاصہ رہا ہے۔یعنی جنگجو وانہ صفت۔ امریکہ کی آمد کے تین سال بعد افغانوں کی طرف سے خارجی فوجیوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع ہوگئی۔ امریکی پہلے پہل ان چھوٹے موٹے حملوں کو مزاق اور دل لگی سمجھ کر نظر انداز کرتے تھے۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان حملوں میں شدت آنی شروع ہوگئی۔
اتحادی افواج نے اپنی تمام تر زمینی ، ہوائی،اور جدید خلائی قوت کو بروئے کار لاکر ان نہتے مخالف افغانوں کو نیست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی ۔ ظلم و جبر سے بھی کام لیا گیا۔ازیت خانوں اور عقوبت خانوں کو بھی ان افغانوں سے بھر دیا گیا ۔ لیکن بے سود۔اور آخر کار2021 کو امریکہ نے بھی فیصلہ کیا کہ ہم بھی یہودی قوم کی طرح بیس سال تک صحرائے سینا میں سرگرداں پھرتے رے لیکن منزل نہیں پا سکے۔ اور اب ہمیں صرف نکلنے کا راستہ دکھا کر ہمیں معافی کا مو قع دیجیے۔
لہذا آج ایک بار پھر دو دریاؤں کے بیج رہنے والوں نے اپنی فطری جنگی ذوق کو ثابت کردیا۔کہ پشتون توابع نہیں ہوسکتے۔ بقول پشتون جنگ میں ہمیں بربادی قبول ہے _ لیکن شکست قبول نہیں
افغان باقی۔۔۔کہسار باقی
الحکم اللہ۔۔۔الملک اللہ
( تحریر: نعیم الرحمن)
