اسٹیٹ بینک نے اپنی پالیسی شرح سود کو20 فیصد سے بھی زیادہ کردیا ہے۔ حکومت کا بلند شرح سود کی پالیسی کی وجہ سے سود کا خرچہ تقریباً دوگنا ہو گیا ہے اور اب ٹیکس کی وصولیوں کا تقریباً 70 فیصد سود میں جا رہا ہے۔ جب حکومت غریب عوام کو ریلیف دینے اور انفراسٹرکچر بنانے کے بجائے سود کی ادائیگی میں پیسہ ضائع کر رہی ہے تو ٹیکس بڑھانے کا آخر کیا فائدہ؟ صرف ایک % زیادہ شرح سود کی سالانہ لاگت حکومت کے لیے تقریبآ 300 بلین روپے ہے، جو کہ لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں میٹرو بسوں پر خرچ کی گئی مجموعی رقم سے زیادہ ہے۔ یہ یہ احساس پروگرام کے کل سالانہ بجٹ سے اور وفاقی حکومت کے مجموعی صحت اور تعلیم کے بجٹ سے بھی زیادہ ہے، یہ واضح رہے کہ یہاں صرف ایک فیصد شرح سود کا موازنہ کیا جا رہا ہے ۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سود کی رقم باہر جا رہی ہے ، جی نہیں 90 فیصد سود پاکستان کے اندر بینکس ، ان کے ڈپوزٹرز اور حکومت کے بانڈز خریدنے والوں کو دیا جا رہا ہے۔ اور اسکی رقم اسٹیٹ بینک کے پالیسی شرح سود پر منحصر ہوتی ہے ۔ پاکستان کا اندرنی قرضہ تقریباّ 33 ٹریلین روپے ہے اوراس پر 20 فیصد سود کی ادائگی 6600 بلین ہوگی ۔اور مستقبل میں ٹیکس کی وصولی کا تقریباً 90 فیصد سود میں جائے گا۔ ایک ایسی بوری جس میں اتنا بڑا سوراخ ہے کہ اسمیں کچھ بھی نہیں رکے گا ۔
پالیسی سود کی بلند شرح کو برقرار رکھنے کے لیے دیئے گئے جواز: 1) افراط زر کو کنٹرول کرنا؛ اور 2) زر مبادلہ کی شرح کو مستحکم کرنا، دونوں ہی انتہائی ناقص اور حقیقت کے برخلاف ہیں۔ بلند شرح سود سے کاروبار کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں زیادہ مہنگائی ہوتی ہے۔ دوسری طرف، بلند شرح سود بینک ڈپازٹرز اور بانڈ ہولڈرز کے ہاتھوں میں رقم کی سپلائی کو بڑھاتی ہے جس کا نتیجہ بھی افراط زر کی صورت میں نکلتا ہے، خاص طور پر جب حکومت۔ سب سے بڑا قرض لینے والا خود کمرشل بینکوں سے قرض لے کر سود ادا کر رہا ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ جب ملک کی معاشی حالت خراب اور شرح سود میں اضافہ اسے مزید خراب سے خراب تر کررہا ہو تو زیادہ سود کو کمانے کے لیے کوئی بیرونی انوسٹمینٹ، جو زر مبادلہ کی شرح کو مستحکم کرے، نہیں ہونے والی ۔ ویسے بھی سود کو کمانے والے ہاٹ بیرونی سرما ئے کے نقصان ہم دیکھ چکے ہیں-
بلند شرح سود معیشت اور حکومت کی غریب عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی صلاحیت دونوں کو بری طرح نقصان پہنچاتی ہے۔ جہاں موقغ ملے ہمیں یہ سوال اٹھانا چاہیے کہ اسٹیٹ بینک نے اتنا زیادہ نقصان پہنچانے والی سود کی شرح میں اضافہ کرنے کی حماقت آخر کیوں کی ہے؟
معاشیات میں نوبل انعام یافتہ، کولمبیا یونیورسٹی کے یونیورسٹی پروفیسر اور ورلڈ بینک کے سابق چیف اکانومسٹ جوزف ای اسٹگلٹز نے لکھا ہے::
“کچھ معیشت دان کہیں گے کہ مہنگائی ٹھیک ہو جائے گی کیونکہ اسٹیٹ بینکس نے اس سے لڑنے کے لئے (سود کی شرحوں میں اضافہ کرکے) اس طرح کے عزم کا اشارہ کیا ہے۔ میرے کتے ووفی نے جب بھی ہمارے گھر کے اوپر سے اڑتے ہوائی جہازوں پر بھونکنا شروع کیا تو شاید یہی نتیجہ اخذ کیا ہو۔ کہ اس نے انہیں ڈرا دیا تھا، اور یہ کہ نہ بھونکنے سے جہاز کا اس پر گرنے کا خطرہ بڑھ جاتا- کوئی امید کرے گا کہ جدید معاشی تجزیہ ووفی کے مقابلے میں زیادہ گہرائی تک جائے گا۔ حالات پر ایک محتاط نظر ڈالنے سے اس نظریے کی تائید ہوتی ہے کہ مہنگائی بنیادی طور پر سپلائی سائیڈ میں رکاوٹوں کی وجہ سے ہوئی ہے۔ جیسے جیسے یہ مسائل حل ہو جائیں گے، مہنگائی میں کمی آنے کا امکان ہے – یہ واضح طور پر بتانا بہت مشکل ہے کہ مہنگائی پر کب تک قابو پایا جائے گا۔ اور کوئی نہیں جانتا کہ کون سے نئے جھٹکے ہمارے منتظر ہیں۔ لیکن میں اب بھی ان کے ساتھ ہوں ۔ جو لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ افراط زر اپنے طور پر کافی حد تک ٹھیک ہو جائے گا اور یہ کہ چیزوں کی سپلائی کی رکاوٹوں کو دور کرنے کی پالیسیوں کے ذریعے اس عمل میں تیزی لائی جا سکتی ہے، یہ سود کی شرح میں اضافہ کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے جس میں واضح طور بہت زیادہ اور مستقل اخراجات ہوتے ہیں لیکن صرف مشکوک فوائد۔۔”
قرآن شریف میں ہے کہ “اورسود کو اﷲ تباہ کرتا ہے (یعنی سودی مال سے برکت کو ختم کرتا ہے)” اور یہ کہ “قیا مت کے دن سود کھانے والے ایسے کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے انھیں چھو کر مخبوط الحواس کر دیا ہو” ، میرے خیال میں موجودہ صورتحال میں بھی یہ صورت نظر آ رہی ہے۔
حریر : ڈاکٹر قانت خلیل اللہ
